ازواج مطہرات سے اجازت اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف روانگی
وفات سے تین دن قبل، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف فرما تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میری بیویوں کو جمع کرو۔‘‘ تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اپنی بیماری کے دن حضرت عائشہ کے گھر گزار لوں؟‘‘ سب نے اجازت دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھنا چاہا تو کمزوری کے سبب نہ اٹھ سکے۔ تب حضرت علی اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے سہارے سے اُٹھایا اور حجرہ میمونہ سے حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے گئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا تو مسجد میں جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ شدت سے بہنے لگا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’میں نے کبھی کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ میں آپ کا ہاتھ لے کر چہرہ مبارک پر پھیرتی تھی کیونکہ وہ میرے ہاتھ سے زیادہ پاکیزہ تھا۔‘‘
پسینے میں ڈوبا چہرہ، مسجد کی طرف روانگی اور آخری خطبہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزوری اور تکلیف کو دیکھ کر صحابہ خوف زدہ ہو گئے اور مسجد میں رش لگ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازیں سنیں اور دریافت فرمایا: ’’یہ کیسا شور ہے؟‘‘ عرض کیا گیا کہ لوگ آپ کی حالت سے گھبرا گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے ان کے پاس لے چلو۔‘‘ جب کھڑا نہ ہو سکے تو سات مشکیزے پانی آپ پر بہائے گئے جس سے کچھ افاقہ ہوا۔ پھر سہارے سے مسجد لے جایا گیا۔ منبر پر تشریف فرما ہو کر آپ نے اپنا آخری خطبہ دیا: ’’لوگو! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟‘‘ سب نے کہا: ’’جی ہاں، اے اللہ کے رسول۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میری تم سے ملاقات دنیا میں نہیں، حوض کوثر پر ہو گی۔ مجھے دنیا کے فتنوں کا خوف ہے، کہ تم بھی ان میں مبتلا ہو جاؤ گے جیسے پچھلی امتیں ہوئیں۔‘‘
نماز اور عورتوں کے متعلق وصیتیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار نماز کی وصیت فرمائی: ’’لوگو! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اللہ کے پاس جو ہے، تو اس نے وہ چُنا جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ صحابہ میں سے کوئی نہ سمجھا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سمجھ گئے، زاروقطار رونے لگے اور بار بار کہنے لگے: ’’ہمارے ماں باپ، اولاد اور مال سب آپ پر قربان!‘‘
حضرت ابوبکر کا مقام اور نبی کریم ﷺ کا اعتراف
حضرت ابوبکر صدیق کے جذباتی ردعمل پر بعض صحابہ نے ناگواری کا اظہار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! ابوبکر کو چھوڑ دو، تم میں سے کسی نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر کے۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے، جو ہمیشہ کھلا رہے گا۔‘‘ پھر آپ نے اُمت کے لیے آخری دعا فرمائی: ’’اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔‘‘
آخری ملاقات، آخری مسواک، آخری لمحے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے حجرہ عائشہ میں لایا گیا۔ اس دوران حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر ہاتھ میں مسواک لے کر حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کو دیکھا لیکن شدت مرض کی وجہ سے مانگ نہ سکے۔ حضرت عائشہ سمجھ گئیں اور مسواک اپنے منہ سے نرم کر کے حضور کے دہنِ مبارک میں رکھی۔ وہ فرماتی ہیں: ’’آخری چیز جو نبی کریم کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب دہن تھا، اور یہ اللہ کا مجھ پر فضل تھا۔‘‘
فاطمہ الزہرا سے آخری راز اور وصال کی بشارت
اسی دوران حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، حضور نے ان کے چہرے پر غم دیکھا اور فرمایا: ’’قریب آ جاؤ،‘‘ اور ان کے کان میں کوئی بات کہی جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ قریب بلا کر دوسری بات کہی تو وہ مسکرا اٹھیں۔ بعد میں حضرت عائشہ کے پوچھنے پر فرمایا: ’’پہلی بار میرے وصال کی خبر دی، اور دوسری بار کہا کہ اہلِ بیت میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔‘‘ پھر سب کو باہر بھیج کر حضرت عائشہ سے فرمایا: ’’میرے قریب آ جاؤ،‘‘ اور ان کے سینے پر ٹیک لگائی، ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور فرمایا: ’’مجھے اعلیٰ رفیق پسند ہے۔‘‘
جبرائیل کی آمد، ملَکُ الموت اور روح پُرنور کا خروج
جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا: ’’یارسول اللہ! ملَکُ الموت دروازے پر ہیں، اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں آنے دو۔‘‘ ملَکُ الموت آئے اور عرض کیا: ’’اے محمد بن عبد اللہ! اللہ نے آپ کو اختیار دیا ہے، چاہیں تو دنیا میں رہیں، ورنہ اللہ کے پاس چلے جائیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اعلیٰ رفیق پسند ہے۔‘‘ پھر ملک الموت نے کہا: ’’اے پاکیزہ روح، اللہ کی رضا کی طرف روانہ ہو، ایک ایسے رب کی طرف جو راضی ہے اور ناراض نہیں۔‘‘ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’آپ کا سر میرے سینے پر جھک گیا اور میں سمجھ گئی، آپ کا وصال ہو چکا ہے۔‘‘
صحابہ کا غم، ابوبکر کا صبر، اور تدفین
حضرت عائشہ حجرہ سے باہر آئیں اور اعلان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا ہے۔‘‘ مسجد آہوں اور سسکیوں سے گونج اٹھی۔ حضرت علی وہیں بیٹھ گئے، حضرت عثمان بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے، اور حضرت عمر تلوار اٹھا کر کہنے لگے: ’’جو کہے کہ نبی کا وصال ہوا ہے، میں اس کی گردن اُڑا دوں گا۔‘‘ اس موقع پر سب سے زیادہ ضبط حضرت ابوبکر نے کیا۔ آپ حجرے میں گئے، ماتھے پر بوسہ دیا اور فرمایا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔‘‘ پھر باہر آ کر فرمایا: ’’جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی، وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا، اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ ہمیشہ زندہ ہے۔‘‘