مباشرت کرنا کوئی بری بات نہیں ہے (میاں بیوی کے درمیان) اور نہ ہی یہ عورت کے لیے کوئی تکلیف کا سبب ہے – البتہ یہ تو بہت پر لطف چیز ہے – ابتدا میں کچھ عورتوں کے لیے یہ عمل تھوڑا تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن بعد میں نارمل اور لذّت آمیز ہو جاتا ہے – ملاپ سے پہلے آرگیزم (انتہائے لذّت) حاصل کرنا بہت ضروری نہیں ہے – بہت سی عورتیں انتہائے لذّت حاصل نہیں کر پاتیں لیکن ان کی زندگی بہت خوش گوار ہوتی ہے – مباشرت اور بچے کی پیدائش میں مرد اور عورت کا ایک ہی وقت میں انزال ہونا ضروری نہیں ہے – مرد کی طرح عورتیں بھی سیکس سے لطف اندوز ہوتی ہیں – اور مرد ہمیشہ ایسی عورت کو پسند کرتا ہے جو سیکس میں اس کا ساتھ دیتی ہے – مباشرت کی کثرت عورت کے لیے کسی بھی طرح نقصان دہ نہیں ہے – چاہے کتنی ہی بار کیا جائے – اور ہر بار کا انزال عورت کی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے –
لیکوریا صرف فرج یعنی عورت کی شرم گاہ کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے – اور menses ختم ہو جانے پر عورت کی سیکس کی خواہش ختم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے – عورت آخر تک سیکس سے لطف اندوز ہو سکتی ہے – شادی کی بنیاد یا شادی کا مقصد مباشرت ہے لیکن نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ بلکہ خواتین بھی اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں، میاں بیوی دونوں ہی اکثر اوقات مباشرت سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے۔ ہاں بعض اوقات نئی دلہنوں کے لیے تھوڑی تکلیف کا سبب ہوتا ہے لیکن بعد میں ان کے لیے بھی بہت لطف ہے – تکلیف صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ کچھ خواتین جنسی عمل یا مباشرت کو اچھا نہیں سمجھتیں اور جب شوہر ان کے پاس آتا ہے تو خوف کی وجہ سے ان کے جسم میں اکڑاؤ آ جاتا ہے اور ان کا جسم تن جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی فرج کے لب بہت زیادہ تناؤ میں آ جاتے ہیں اور جب دخول کا عمل ہوتا ہے تو انھیں تکلیف ہوتی ہے –
اگر خواتین اپنی اس خامی پر قابو پا لیں تو وہ نہ صرف خود بھرپور لطف حاصل کر سکتی ہیں بلکہ اپنے خاوند کے لیے بھی لطف کا سبب بن سکتی ہیں – اور شوہر ہمیشہ ایسی بیوی کو پسند کرتا ہے جو جنسی عمل میں اس کا بھرپور ساتھ دے – اور اسلام کے مطابق اگر بیوی اپنے شوہر کے ساتھ تعاون نہ کرے تو وہ گناہ گار ہوتی ہے – مباشرت کی اس تھوڑی سی تکلیف سے بچا جا سکتا ہے جو اکثر خواتین نے خود اپنے اوپر مسلط کر رکھی ہے – اگر خواتین مباشرت کے وقت اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں تو انھیں مباشرت میں تکلیف نہیں ہوتی – عام طور پر شروع کی چند مباشرتوں میں تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ تکلیف اس تکلیف سے بھی کم ہوتی ہے جو زیور کی شوقین عورتوں کو ناک اور کان چھدواتے وقت ہوتی ہے – جنسی لحاظ سے مرد اور عورت میں بہت فرق پایا جاتا ہے – مرد ذرا سے جنسی اشتعال سے فوراً مباشرت کے لیے تیار ہو جاتا ہے – پھر جیسے ہی مرد جنسی اشتعال میں آتا ہے تو فوراً جنسی عمل کے ذریعے منزل (discharge) ہو کر سکون حاصل کرنا چاہتا ہے –
لیکن اگر وہ جنسی اشتعال کے بعد بیوی کے عدم تعاون کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے منزل نہ ہو سکے تو وہ شدید تناؤ میں آ جاتا ہے – جھنجھلاہٹ اور تکلیف کا شکار ہو جاتا ہے – اگر مرد کو بیوی کے عدم تعاون کی وجہ سے بار بار اس مشکل سے گزرنا پڑے تو مرد کے دل میں بیوی کے لیے نفرت آ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں یا تو مرد مکمل طور پر بیوی کو ناپسند کرنے لگتا ہے یا جزوی طور پر نامرد ہو جاتا ہے – یا پھر دوسری عورتوں کی طرف مائل ہو کر گناہ کی دلدل میں پھنس جاتا ہے – اسی لیے ہمارا اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جب بھی شوہر اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے تو فوراً اس کے پاس جائے – میاں بیوی دونوں کی جنسی تیاری میں بھی بہت فرق ہے – مرد صرف 2 سے 3 منٹ کے جنسی اشتعال سے مباشرت کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور دو تین منٹ میں ہی منزل ہو جاتا ہے – جبکہ عورت کو مرد سے دس گنا زیادہ وقت لگتا ہے منزل ہونے میں – عورت کو جنسی سکون کے حصول کے لیے کم از کم تیس منٹ کے جنسی کھیل (foreplay) کی ضرورت ہوتی ہے – اور اصل مباشرت کا طریقہ بھی یہیں ہے – مرد اور عورت کے جنسی حصول کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں – مرد جلد از جلد اپنے جنسی ہیجان کو خارج کرنا چاہتا ہے جبکہ عورت آہستہ آہستہ جنسی لذت میں اضافے کو بہت پسند کرتی ہے –
دونوں کی جنسی خواہش میں بھی بہت فرق ہوتا ہے – مرد کی عموماً 18 سے 24 سال تک جنسی خواہش عروج پر ہوتی ہے جبکہ عورت کی جنسی خواہش 20 سے 40 سال تک بہت زیادہ ہوتی ہے – کسی وقت مرد اور کسی وقت عورت کی جنس خواہش زیادہ ہوتی ہے اس کا صحیح اندازہ لگانا کچھ مشکل ہوتا ہے – جب کام کا زیادہ بوجھ عورت پر ہو تو اس کی جنسی خواہش کم ہو جاتی ہے جبکہ مرد سارا دن باہر رہ کر عورتوں کو دیکھتا ہے تو اس کے جنسی ہیجان میں اضافہ ہو جاتا ہے – اسی طرح مختلف اوقات میں دونوں کی جنسی خواہشات بدلتی رہتی ہیں –
