انڈیا کی تاریخ کے خوفناک سانحات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔اس دن کچھ ایسا ہوا جس نے پوری دنیا کو ہلا کررکھ دیا۔

اور تاریخ کی کتب میں world’s worst industrial disaster میں سمجھا جاتا ہے۔

آپ تصور کریں۔آپ آج صبح اٹھے ہوں گے۔ناشتہ کیا اور روٹین کے کاموں میں مگن ہوں گے۔آج رات جب آپ سوئیں گے۔تو دوبارہ اٹھنے کی سکت نہیں ہو۔اجل گہرے پنجے گاڑھ دے۔ایسا ہی کچھ معاملہ بھوپال (انڈیا) میں ہوا۔

دسمبر 1984ء کو عبدالجابر خان اپنی فیملی کے ہمراہ سورہے تھے۔یہ رات 1 بج کر 30 منٹس کا وقت ہوگا۔بیوی کی آنکھ کھل گی۔وہ گھبرائی سی کہنے لگی گلے میں شدید جلن ہورہی ہےآنکھیں جل رہی ہیں اور شاید کچھ جل رہا ہے دونوں میاں بیوی بچوں سمیت بھاگتے ہوئے گھر سے باہر نکلے۔ مگر یہاں ایک اور دردناک منظر ان کا منتظر تھا۔دھواں، درد، کھانسی کے دورے پڑتے رہےاور آنکھوں کی جلن پورے علاقے میں پھیل گی۔

عبدالجابر کی بیوی ہمیشہ کے لیے سانس کی مریضہ بن گی اور ان کے دونوں بچے بھی وہیں دم توڑ گے۔تمام علاقہ “ڈیڈ باڈیز” سے بھرگیا تھا۔تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں کو زہر لگ چکا تھا۔ان میں سے کم از کم 20 ہزار لوگ لقمہ اجل بنے۔

آخر اک زہریلی گیس کیسے پھیل گی؟اور اتنی بڑی تعداد میں جانوں کا ضیاع کیوں ہوا؟

رپورٹس کے مطابق بھوپال میں ایسے مناظر عام دیکھے گے

بچوں کے جسم نیلے ہوگے۔حاملہ عورتوں کے پیٹ میں بچے مرگے۔لوگ کھانستے ہوئے گلیوں میں بے ہوش ہوتے ، گرتے رہے۔درد اتنا تھا کہ سانس کی نالیاں سوجن کا شکار ہوگیں۔کچھ لوگوں کی آنکھوں کی بینائی کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔

تحقیقات پہ اک امریکی گیس بنانے والی ملٹی نیشنل کا نام سامنے آیا۔یونین کمپنی نے حفاظتی انتظامات انتہائی ناکارہ کیے تھے۔گیس روکنے والا یونٹ بند تھا۔اور فلیئر ٹاور کو بھی ری پیئر نہیں کیا گیا تھا۔زہریلی گیس پھیلتی رہی۔المختصر چند روپے بچانے کے چکر میں سارا شہر موت کی چادر اوڑھ گیا۔

امریکی مالک انڈیا آیا ۔ انڈین سرکار نے گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی۔مگر وہ فرار ہوگیا۔بعد میں صرف 470 ملین کا سمجھوتہ کیا گیا۔اس سانحہ پہ بے شمار کالمز، نیٹ فلیکس سیریز اور ریسرچ بھی کی گی ہے۔

سانحہ بھوپال سے ہمیں درج ذیل اسباق سیکھنےکو ملتے ہیں

کمپنی کو لالچ کے چکر میں 400 ملین سے اوپر کا نقصان بھرنا پڑ سکتا ہے۔

معمولی سے خرچے کے چکر میں 20 ہزار انسانوں کی جان بھی جاسکتی ہے۔

اپنی کمپنی میں سیفٹی پروٹوکولز کی عادت اپنایئے۔

کمپنی ہیڈ جیسے وارن اینڈرسن بھی ریمنڈ ڈیوس کی طرح بھاگ نکلا۔

(گو قانون سب کے لیے برابر ہے۔)

اس اک نااہلی کی وجہ سے کئی برسوں تک پانی آلودہ، مٹی زہریلی رہی۔

اپنے سکولز، کتب، ورکشاپس اور کمپنیوں میں سیفٹی کے معیارات کو اولین ترجیعات پہ رکھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *