جسے جیسے وقت میں جدت آتی جا رہی ہے جرائم کی نوعیت بھی نئی سے نئی ہوتی جا رہی ہے اب جب تک ہمارے سامنے پروان چڑھنے والے بچے اپنے شعور کو پہنچیں گے تو ایسے جرم سامنے آتے جائیں گے کہ عقل ششدر رہ جائے گی ابھی حالیہ ایک ایسا سکینڈل سامنے آیا جس نے بچیوں کی ماؤں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہوا یوں کہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کی رہائشی خاتون کونسانگ کبھی کبھار اپنی سترا سالہ نوجوان بہن ڈولما کے فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چیک کرتی تھیں تاکہ انھیں پتا رہے کہ اُن کی چھوٹی بہن انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے کیا دیکھ رہی ہیں کونسانگ کی اپنی عمر 21 برس ہے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کے سنیپ چیٹ اکاؤنٹ پر کی جانے والی ایک پوسٹ اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بہت سے ایسے پیغامات دیکھے جس نے انھیں چونکا دیا۔

بی بی سی سے گفتگو میں کونسانگ نے بتایا کہ اپنی بہن کے سنیپ چیٹ پر انھوں نے ایک ہاتھ دیکھا جس پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔۔۔ یہ تصویر کچھ دیر تک دکھائی دی۔۔۔ مجھے تجسس ہوا اور میں نے مزید جاننے کی کوشش کی۔ اور اس کے بعد کونسانگ کو جو کچھ پتہ چلا، اس نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی بہن اور اس کی دوست جیسمین کی ایک اور لڑکی کے ساتھ چیٹ دیکھی۔۔۔ وہ بیضوں (انڈے یا ایگز) کو عطیہ کرنے اور کلینکس پر جانے جیسے معاملات پر گفتگو کر رہی تھیں۔‘
کونسانگ نے مزید بتایا کہ اُن کی بہن جس تیسری لڑکی سے گفتگو کر رہی تھیں وہ ایک ایجنٹ تھی۔ انٹرنیٹ پر مزید تحقیق کرنے کے بعد کونسانگ کو معلوم ہوا کہ اُن کی بہن اور اس کی دوست جسمین دراصل کھٹمنڈو کے آئی وی ایف کلینکس کے جال میں پھنسی ہوئی تھی ، جو کہ بروکر یعنی ایجنٹس کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کو پیسوں کے عوض اپنے بیضے بیچنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسے بے اولاد جوڑے جو آئی وی ایف کے ذریعے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُن میں سے بہت سے عطیہ شدہ بیضوں اور سپرمز پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک اور کیس سامنے آیا جس میں نوربو کی عمر 39 سال ہے اور وہ ڈولما کی دوست جیسمین کے والد ہیں۔ ڈولما کو بھی پیسوں کے عوض اپنے بیضے فروخت کرنے کا لالچ دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں مبینہ طور پر ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والی لڑکی سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد، دونوں لڑکیوں (ڈولما اور جیسمین) کے اہلخانہ نے اس معاملے کی اطلاع پولیس کو دی۔ ڈولما اور جیسمین کی عمریں 17 برس ہیں لیکن وہ مبینہ ایجنٹ لڑکی، جو انھیں کلینک تک لے کر گئی، کا کہنا تھا کہ اُن کی عمریں 22 برس ہیں۔ مبینہ طور پر اس پورے معاملے میں دونوں لڑکیوں کے فرضی نام استعمال کیے گئے۔ جسمین کے والد نوبرو کہتے ہیں کہ جب وہ آئی وی ایف کلینک گئے تو وہاں موجود ڈاکٹر نے انھیں کہا کہ ’ایسا کوئی قانونی جواز موجود نہیں جس کے تحت ہم اُن (لڑکیوں) سے سوال کر سکیں۔‘ نوبرو کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نے پولیس سے رابطہ کیا۔ ’یہ پولیس کے لیے اپنی نوعیت کا نیا کیس تھا۔ وہ بھی حیران تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کب تک انصاف کے حصول کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔‘ کچھ عرصہ قبل جب نوجوان لڑکیوں کے بیضے پیسوں کے عوض فروخت کرنے کا معاملہ نیپال کے مقامی میڈیا کے سامنے آیا تو اس پر خوب ہنگامہ ہوا اور عوام کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر خرید و فروخت کی اس صنعت کے قواعد و ضوابط ترتیب دیے جائیں۔ اس صورتحال نے نیپال میں قائم 50 سے زیادہ فرٹیلیٹی کلینکس سے متعلق موجود قوانین میں خامیوں اور ان کی نگرانی میں موجود نقائص کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان فرٹیلیٹی کلینکس میں سے بہت سے نیپال کی وزارت صحت سے منظور شدہ ہیں اور کچھ اس کے منتظر ہیں۔

حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ رجسٹرڈ کلینکس کے علاوہ بہت سے غیر لائسنس یافتہ کلینکس بھی غیرقانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ نیپال کے وزیر صحت نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے کہ فرٹیلٹی سے متعلق علاج میں قانونی اور اخلاقی معیارات کو یقینی بنایا جائے۔ جولائی کے وسط میں نیپالی حکام نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے آئی وی ایف کلینکس کے آپریٹنگ معیارات کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے چندرہ کبر کاپنگ نیپال میں سینٹرل انویسٹیگیشن بیورو کے سربراہ ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ کلینکس کی طرف سے بروکرز (ایجنٹس) کو ہر بیضے کے بدلے 330 ڈالر تک ادا کیے جاتے ہیں جس میں سے زیادہ تر رقم بروکر خود رکھ لیتے ہیں جبکہ بہت تھوڑی رقم بیضہ دینے والی لڑکیوں یا خواتین کو دیے جاتے ہیں- وہ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیقات کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچیوں کے بیضوں کو اُن کے والدین یا سرپرستوں کی اجازت کے بغیر لیا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ لڑکیاں بہت تکلیف دہ عمل سے گزری ہیں۔ انھیں 10 روز تک مسلسل انجیکشن لگائے جاتے رہے تاکہ ان کی بیضہ دانی میں ایگ مکمل طور پر میچور ہو جائیں۔ اور اس کے بعد ان کی سرجری کی گئی تاکہ ان سے ایگز کو نکالا جائے۔ اس پیچیدہ اور صحت کے لیے خطرناک عمل کو کرتے ہوئے والدین سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔‘ پولیس حکام ماننا ہے کہ ہسپتال کے ریکارڈ میں بھی تبدیلیاں کی گئیں اور بیضے عطیہ کرنے والوں کی عمریں اور نام غلط لکھے گئے۔

اللہ پاک آس طرح کے قبیح جرائم سے ہم سب کو محفوظ رکھے آمین یارب العالمین

 
 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *