اشفاق احمد لکھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ تم ایک گلاب نہیں بن سکتے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم کانٹا بن جاﺅ۔ یہاں ایک راز کی بات ہے کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا وہ بالآخر گلاب بن ہی جاتا ہے۔اشفاق احمد کہتے تھے دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے اس سے مت جھگڑو خوشی مناﺅ کہ اس مہربان رب نے تمہیں چُن لیا ہے۔

اشفاق احمد کہتے تھے جب انسان اپنی وقعت کھو دے تو اس کے لئے بہترین پناہ خاموشی ہے۔ وضاحت کبھی سچا ثابت نہیں کر سکتی ندامت کبھی نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ الفاظ کبھی انسان کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس نہیں دلا سکتے۔ جب کھونے ک نوبت آتی ہے تب پانے کی قیمت سمجھ آتی ہے۔ اشفاق احمد کہتے تھے جاہل وہ نہیں ہوتا

جو تعلیم یافتہ نہ ہو بلکہ جاہل وہ ہوتا ہے جس نے ڈگریوں کے ڈھیر لگا رکھے ہوں مگر اپنے ظرف میں وسعت و لہجے میں نرمی اور طبیعت میں انکساری نہ پیدا کر پایا ہو۔ من کی میل کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنی ”میں“ کو ختم کرو اور ”میں“ کو ختم کرنے کے لئے عاجز بننا ضروری ہے اور عاجز بننے کے لئے ضروری ہے کہ تو اپنے آپ کو بھول جا

کہ تو کیا ہے بس اتنا یاد رکھ کہ تو خاک ہے خاک پر ہے اور تجھے خاک میں ہی جانا ہے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے نفس کو فتح کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن اس کی بڑی بھی اور کوئی حقیقت نہیں کہ اپنے نفس کی بجائے انسان اور کس شے کو فتح کر سکتا ہے ساتھ ساتھ یہ بھی سُن لو کہ

جس نے اپنے نفس کو فتح کر لیا اس کے لیے باقی کی ساری چیزیں خود بخود مغلوب ہو گئیں اور یاد رکھو اس دنیا میں بس ایک ہی فتح ہے اور ایک ہی شکست۔ اپنے نفس سے اس کے ہاتھوں ہزیمت کھانا شکست ہے اور اپنے نفس پر اُس کے ہاتھوں حکمرانی کرنا فتح ہے۔ ”ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کسی کو دھوکہ نہ دینا کیونکہ دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے

یہ کبھی نہیں مرتا گھوم کر ایک دن واپس آپکے پاس ہی پہنچ جاتا ہے کیونکہ اس کو اپنے ٹھکانے سے بہت محبت ہوتی ہے“ اشفاق احمد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *